پروین شاکر کی شاعری کی خصوصیات | PDF

پروین شاکر کی شاعری کی خصوصیات: جب بادِ نسیم پھولوں کو چھوتی ہے تو خوشبو کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ خوشبو سارے باغ کو مہکانے کے بعد باغ سے نکل کر کائنات کو سرشار کر دیتی ہے۔ پروین شاکر کے شعری سفر کا آغاز بھی “خوشبو” سے ہوا، جس میں ایک سو سولہ غزلیں شامل ہیں۔

یہ سفر “صد برگ” سے ہوتا ہوا “خود کلامی” تک پہنچا اور اس سفر میں زندگی کے مختلف رنگوں، جذبات، اور تجربات کو پروین شاکر نے اپنی شاعری میں سمودیا۔ یہ سفر نہ صرف ان کے تخلیقی اظہار کا مظہر ہے بلکہ اردو شاعری میں ان کے منفرد مقام کی گواہی بھی دیتا ہے۔

پروین شاکر کی شاعری کا یہ خوبصورت سفر ابھی تک جاری ہے، اور ہر قدم پر یہ شاعری قاری کو نئی خوشبوؤں اور جذبات سے آشنا کرتی ہے۔

پروین شاکر کی شاعری کی خصوصیات
پروین شاکر کی شاعری

پروین شاکر کی شاعری کی خصوصیات

  • اسلوب بیان
  • مشرقی رنگ
  • زبان و بیان پر دسترس
  • انسانی نفسیات کا گہر اشعور
  • تشبیہات و استعارات کا استعمال
  • محاورات کا استعمال
  • تانیثیت کارنگ
  • محبت کے جذبات
  • روح عصر کی موجودگی
  • کائنات کا مطالعہ
  • بحثیت ماں کے جذبات کی عکاسی
  • انا اور خود داری
  • پروین شاکر کی شاعری میں رقیب کا تصور

اسلوبِ بیان

پروین شاکر کے کلام کا اسلوب اور منفرد آہنگ انہیں دیگر غزل گو اور نظم گو شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں شگفتگی، رعنائی، اور دلکشی کی وہ خصوصیات پائی جاتی ہیں جو قاری کو ابتدا سے اختتام تک اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔ ان کے اشعار کا ہر لفظ ان کے گہرے جذبات اور احساسات کا ترجمان ہے، جو نہ صرف انفرادیت کا مظہر ہیں بلکہ ان کے جمالیاتی شعور کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔

دل پہ اک طرفہ قیامت کرنا
مسکراتے ہوئے رخصت کرنا

پروین شاکر کے کلام میں احتجاجی لہجہ ضرور موجود ہے، جو ان کے منفرد سماجی اور اخلاقی شعور کا عکاس ہے۔ تاہم، ان کا احتجاج نعرہ بازی سے عاری ہے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنی شاعری کو جلسے جلوسوں کی نذر نہیں کیا بلکہ اپنے اشعار میں لطافت، تغزل، اور موسیقیت کو اس مہارت سے پرویا ہے کہ ان کا کلام سراپا جمال و کمال بن جاتا ہے۔

پروین شاکر کا اسلوب ایسا ہے جو تلخ حقیقتوں کو بھی بیان کرنے کے لیے نرم اور دھیمے لہجے کا انتخاب کرتا ہے۔ ان کے کلام میں موجود اسلوب کی شیرینی، نرم روی، اور جمالیاتی نزاکت ان کے اندازِ سخن کو منفرد اور دلکش بناتی ہے۔(2)

ان کا یہ شعری وصف ان کی سوچ کی گہرائی اور فن کے لطیف احساس کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ تلخ حقیقتوں کو بھی نرم لہجے اور لطیف انداز میں بیان کرتی ہیں، جو قاری کے دل کو چھو جاتا ہے اور اسے غور و فکر پر آمادہ کرتا ہے۔

یہ شعر ان کے اندازِ سخن کی بہترین مثال ہے:

ہاتھ تو کاٹ دیے کوزہ گروں کے ہم نے
معجزے کی وہی امید مگر چاک سے ہے

یہ اشعار ایک گہری معنویت اور احتجاج کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن اس میں جو نرم اندازِ بیان اور تغزل ہے، وہ پروین شاکر کے کلام کی انفرادیت اور خوبصورتی کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کا اسلوب ہمیشہ قاری کے دل پر اثر کرتا ہے اور ان کی شاعری میں لطافت اور جمالیاتی حسن کا اظہار ہوتا ہے۔

مشرقی رنگ

جدید طرزِ فکر رکھنے کے باوجود پروین شاکر کے کلام میں مشرقی تہذیب و ثقافت کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کے اشعار میں برصغیر کی صدیوں پرانی روایات، رسم و رواج، اور اقدار کی ترجمانی کا رجحان ملتا ہے۔ ان کے کلام میں وہ روایتی مشرقی عورت کا تصور جھلکتا ہے جو اپنے ماحول، تہذیبی ورثے، اور جذباتی دنیا سے گہری وابستگی رکھتی ہے۔

پروین شاکر کی شاعری میں مشرقی عورت کے جذبات و احساسات کا اظہار نہایت لطیف اور دلکش انداز میں ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں عورت کی حیا، معصومیت، اور اس کے خوابوں کا ذکر ایک خوبصورت انداز میں ملتا ہے۔ ان کے یہاں وہ جذباتی پہلو نمایاں ہیں جو مشرقی ثقافت کا خاصہ ہیں۔

بال بال موتی چمکائے
روم روم مہکائے
مانگ سندور کی سنورتا ہے
چمکے چندن ہار

یہ اشعار پروین شاکر کے اس مشرقی طرزِ احساس کی بہترین مثال ہیں جہاں عورت کے جذبات اور اس کی جمالیات کو گہرے رنگوں میں بیان کیا گیا ہے۔

زبان و بیان پر دسترس

پروین شاکر کے ہاں سادگی اور برجستگی کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ان کے کلام میں الفاظ کا انتہائی موزوں، چابکدستانہ، اور دلکش استعمال ان کے خیالات کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ وہ الفاظ کو اس مہارت سے برتتی ہیں کہ ہر لفظ نہ صرف ان کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ قاری کے دل میں اتر جاتا ہے۔

جوش ملیح آبادی کے بعد پروین شاکر وہ منفرد شاعرہ ہیں جن کے ہاں الفاظ کا ایسا خوبصورت، موزوں اور برمحل استعمال ملتا ہے جو ان کے اشعار کو نہ صرف معنوی گہرائی عطا کرتا ہے بلکہ ان کی جمالیاتی قدر کو بھی بڑھا دیتا ہے۔ ان کے کلام میں مشرقی رنگ اور جدید طرزِ بیان کا یہ امتزاج ان کی شاعری کو ایک منفرد اور دلکش پہچان عطا کرتا ہے۔

کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی

انسانی نفسیات کا گہرا شعور

پروین شاکر انسانی نفسیات اور زندگی کی گہرائیوں کو سمجھنے میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ان کی شاعری میں انسانی فطرت کے وہ گوشے اجاگر کیے گئے ہیں جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ پروین شاکر انسانی جذبات، احساسات، اور نفسیاتی کیفیات کو اس باریکی اور نفاست کے ساتھ پیش کرتی ہیں کہ قاری حیران رہ جاتا ہے۔ وہ انسانی شعور اور لاشعور میں جھانکتی ہیں اور ان پہلوؤں کو اشعار کا حصہ بناتی ہیں جو کم ہی شعری موضوع بنتے ہیں۔

میری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
میرا تن مور بن کر ناچتا ہے

یہ شعر ان کی گہرائی اور فطرت انسانی کی باریک بینی کا عکاس ہے، جہاں انہوں نے انسانی جذبات اور تخیل کو حسین استعاروں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ پروین شاکر خاص طور پر عورت کے داخلی جذبات، اس کی کشمکش، اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو موضوع بناتی ہیں۔ ان کے ہاں ایک لڑکی کی داخلی دنیا، اس کے خواب، خواہشات، اور سماجی قیود کے درمیان کشمکش کو بڑی نفاست سے بیان کیا گیا ہے۔

تشبیہات و استعارات کا استعمال

پروین شاکر کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اردو شاعری کی روایتی تشبیہات و استعارات کو ایک نئی جدت اور تازگی عطا کی ہے۔ ان کے اشعار میں روایتی موضوعات اور علامتوں کو ایسے نئے رنگوں میں پیش کیا گیا ہے کہ وہ قاری کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ پروین شاکر کے استعارات اور تشبیہات ان کے کلام کو ایک منفرد اور دلکش جمالیاتی حسن عطا کرتے ہیں۔

اک حجاب تہہ اقرار ہے مانع ورنہ
گل کو معلوم ہے، کیا دست صبا چاہتا ہے

یہ شعر پروین شاکر کے استعاراتی طرزِ بیان کی عمدہ مثال ہے، جہاں گل اور دستِ صبا جیسے روایتی استعاروں کو جدت اور گہرائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ پروین شاکر کے ہاں تشبیہات و استعارات کا استعمال نہ صرف ان کے اشعار کو ایک جمالیاتی حسن بخشتا ہے بلکہ ان میں معنوی گہرائی بھی پیدا کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں تشبیہات محض الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ وہ قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جاتی ہیں جہاں جذبات، احساسات، اور تخیل سب مل کر ایک خوبصورت کینوس تخلیق کرتے ہیں۔

پروین شاکر کے کلام کا یہ پہلو ان کی شاعری کو نہ صرف منفرد بناتا ہے بلکہ اسے اردو ادب میں ایک بلند مقام پر فائز کرتا ہے۔ ان کی شاعری انسانی جذبات کی زبان بن کر قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔

تانیثیت کا رنگ

پروین شاکر نے اردو شاعری میں نسائی شعور اور تانیثی جذبات کے اظہار کے حوالے سے ایک منفرد روایت قائم کی۔ ان کے کلام میں عورت کا جذبہ، احساس اور داخلی کشمکش نہایت گہرائی اور باریکی کے ساتھ نظر آتی ہے۔ انہوں نے عورت کے جذبات، خواہشات اور محرومیوں کو نسوانی جزیات کے ساتھ ایسا رنگ دیا جہاں عورت عاشق کے روپ میں اور مرد محبوب کے کردار میں نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں یہ انفرادیت اردو ادب کی دنیا میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہے:

چراغ ماہ لیے تجھ کو ڈھونڈتی گھر گھر
تمام رات میں یا قوت چن رہی تھی مگر

یہ اشعار نسائی جذبات کی شدت اور اس کے تخیل کی گہرائی کو نمایاں کرتے ہیں۔ پروین شاکر کے ہاں تانیثیت محض ایک موضوع نہیں بلکہ ان کی شاعری کا خاصہ ہے، جس میں عورت کی خواہشات اور اس کی جدوجہد کو بہت خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔

محاورات کا استعمال

پروین شاکر کی شاعری کا ایک اور نمایاں پہلو اردو اور انگریزی محاورات کا استعمال ہے۔ انہوں نے جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی الفاظ کو اپنی شاعری میں اس طرح برتا ہے کہ وہ اجنبی محسوس نہیں ہوتے بلکہ اشعار کا حصہ بن کر قاری کے دل میں اتر جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں انگریزی الفاظ کی بے تکلفی اور مہارت سے ہم آہنگی ان کی جدت پسندی اور فکری وسعت کی عکاس ہے:

ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں
اور ذہن کہاں بھٹک رہا ہے

یہ اشعار ان کے کلام کی وہ جھلک پیش کرتے ہیں جو جدید طرزِ حیات سے قریب تر اور آج کے قاری کے لیے دلکش اور پُرکشش ہے۔

پروین شاکر کی شاعری میں محبت کے جذبات

پروین شاکر نے محبت کو اپنی شاعری کا مرکزی موضوع بنایا اور اسے نہایت شائستگی، نزاکت اور تہذیب کے ساتھ پیش کیا۔ ان کی شاعری میں محبت صرف جذبات کی کہانی نہیں بلکہ اس کی تہذیب اور ارتقاء کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ نظیر

احمد صدیقی کے مطابق:

“خوشبو میں جذبات عشق کا جو المیہ ملتا ہے اس سے جذبات عشق کی تطہیر ہوتی ہے یا نہیں، لیکن جذبات میں عشق کی وہ تہذیب ضرور ہوتی ہے جسے عشقیہ شاعری کی سب سے بڑی دین مانا گیا ہے۔”(6)

پروین شاکر کے اشعار میں محبت کی شدت، سوز و گداز، اور اس کے المیے کو نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کے ہاں عشق ایک داخلی کیفیت ہے جو دل و دماغ کو جکڑ لیتی ہے:

دل پہ اک طرفہ قیامت کرنا
مسکراتے ہوئے رخصت کرنا

یہ اشعار محبت کے جذبات کی شدت اور اس کے المیے کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ پروین شاکر کی شاعری محبت کے احساسات کو ایک نئی نزاکت اور دلکشی عطا کرتی ہے، جو قاری کو جذبات کی ایک الگ دنیا میں لے جاتی ہے۔

روح عصر کی موجودگی

پروین شاکر کی شاعری میں روح عصر کی جھلک واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ان کے کلام میں اپنی دھرتی سے ایک گہری وابستگی اور عقیدت کا اظہار موجود ہے، جو ان کی حساسیت اور محبت بھرے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک شاعر، جو معاشرتی حالات کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے، اس کے لیے اپنی زمین اور اس سے جڑے رشتے ناگزیر ہوتے ہیں۔ پروین شاکر نے اپنے وطن سے محبت اور اس کی تکالیف کو اپنی شاعری کا حصہ بنا کر اس دھرتی کا قرض چکانے کی کوشش کی ہے۔

پروین شاکر کے مطابق، زمین ماں کی طرح ہوتی ہے۔ ماں کی طرح زمین بھی تکالیف برداشت کرتی ہے، مگر بدلے میں ہمیشہ اپنے بچوں کے لیے دعا کرتی ہے:

زمین ماں کی طرح ہے ہر ستم پر
بس اک حرف دعا ہونٹوں سے جاری

پروین شاکر اس رویے کے سخت خلاف ہیں جس میں کوئی اپنے وطن کو برا بھلا کہہ کر دشمنوں کی داد وصول کرے۔ وہ ایسے “سخن فروشوں” کی مخالفت کرتی ہیں جو اپنی ہی زمین پر تہمت لگاتے ہیں اور اس کی مٹی کی اہمیت کو فراموش کر دیتے ہیں:

قیمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے

کائنات کا مطالعہ

پروین شاکر کے کلام کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ذات سے نکل کر پوری کائنات کا مشاہدہ کیا۔ ایک عظیم شاعر کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی دکھوں کو کائنات کے دکھوں سے جوڑ دیتا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف اس کے ذاتی دکھ ہلکے ہو جاتے ہیں بلکہ اس کا رشتہ کائنات سے مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔ پروین شاکر کے اشعار میں ذات اور کائنات کا یہ امتزاج بڑی خوبی سے نظر آتا ہے۔

چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے
عجیب طرز کا موسم مرے وطن میں رہا

ان اشعار میں پروین شاکر نے نہایت سادگی سے اپنے عہد کے المیوں کو بیان کیا ہے۔ ان کے کلام میں نسلوں کے کٹے ہوئے ذہن اور ان کے عہد کی اجتماعی تکالیف کا ذکر اس بات کی علامت ہے کہ پروین شاکر کی شاعری صرف ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی درد کی بھی نمائندگی کرتی ہے:

نسل کا ذہن کٹ رہا ہے
اگلوں نے کٹائے تھے فقط سر

بحثیت ماں کے جذبات کی عکاسی

پروین شاکر کی شاعری کا ایک منفرد اور دلکش پہلو ان کی ماں کی حیثیت سے جذبات کی عکاسی ہے۔ ان کے کلام میں ماں کی بے لوث محبت، مامتا کی گہرائی اور بچوں سے وابستہ فطری جذبات انتہائی خوبصورتی سے اجاگر کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر جب وہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرتی ہیں تو ان کے الفاظ میں ایک خاص شفقت اور محبت کی تاثیر دکھائی دیتی ہے۔ ان کا بیٹا ان کی کل کائنات ہے، اور اس کی جدائی کا تصور انہیں ہر وقت فکر مند رکھتا ہے۔

میرے گھر میں اجالا بھر گیا
تیری ہنسی کا

یہ شعر ماں کی خوشی اور سکون کو بیان کرتا ہے جو بچے کی موجودگی سے وابستہ ہے۔ پروین شاکر کی اس طرح کی شاعری اردو ادب میں ایک انوکھا اور دلنشین اضافہ ہے، جو ماں کے جذبات کو نہایت سادہ مگر اثر انگیز انداز میں پیش کرتی ہے۔(3)

پروین شاکر نے ماں کے دل میں چھپے خوف اور اندیشے کو بھی بیان کیا ہے۔ یہ خوف ہر ماں کا ہے، جو اپنی اولاد کی سلامتی اور مستقبل کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتی ہے۔ ان کا یہ درد اور جذبہ ہر اس ماں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی مجبوریوں کے باوجود جینے اور زندگی کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔

انا اور خودداری

پروین شاکر کی شاعری میں محبت کے ساتھ ساتھ انا اور خودداری کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ ان کی شاعری میں ایک لڑکی کا کردار محبت میں اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتا ہے مگر اپنی انا اور خودداری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ یہ ایک مضبوط اور باوقار عورت کی تصویر ہے جو اپنی محبت کے ساتھ اپنی عزت نفس کو بھی مقدم رکھتی ہے۔

میں کیوں اس کو فون کروں!
اس کے بھی تو علم میں ہوگا
کل شب
موسم کی پہلی بارش تھی!
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے میرے فیصلوں کا ریشم بھر

یہ اشعار اس کشمکش کی عکاسی کرتے ہیں جو محبت اور انا کے درمیان پیدا ہوتی ہے۔ پروین شاکر کی یہ خاص بات ہے کہ وہ محبت کے سوز و گداز کے ساتھ عورت کے وقار اور خودداری کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دیتی ہیں۔

پروین شاکر کے کلام میں محبت کے ساتھ فراق کے کرب، جدائی کے خوف، اور تعلقات کی پیچیدگیوں کو ایک ایسے انداز میں بیان کیا گیا ہے جو نہ صرف قاری کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان کے جذبات میں غوطہ زن ہونے پر مجبور بھی کرتا ہے۔ ان کے اشعار میں محبت کی لذت، جدائی کا درد، اور خودداری کی شان مل کر ایک لاجواب تاثر پیدا کرتے ہیں۔

پروین شاکر کی شاعری میں رقیب کا تصور

پروین شاکر کی شاعری میں رقیب کا تصور ایک منفرد اور دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ عام طور پر اردو شاعری میں رقیب کو منفی کردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن پروین شاکر نے رقیب کو ایک مختلف زاویے سے دیکھا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں رقیب کو دعا دیتی ہوئی نظر آتی ہیں اور اسے اپنی محبت کی وسعت اور خلوص کا حصہ بنا لیتی ہیں۔

پروین شاکر اپنی شاعری میں اپنے محبوب سے بے پناہ محبت کرتی ہیں، اور اس محبت کی شدت اس قدر ہے کہ وہ اپنے محبوب سے جڑے ہر رشتے کو عزیز رکھتی ہیں۔ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے رقیب کو دعائیں دیتی ہیں اور اپنے ضبط کو آزمانے پر آمادہ نظر آتی ہیں:

کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی

پروین شاکر کی شاعری میں یہ نیا رجحان نمایاں ہے کہ وہ رقیب کو نفرت کا نشانہ بنانے کی بجائے اس کے لیے دعاگو ہیں اور اپنے محبوب کی خوشی کو مقدم رکھتی ہیں۔

پروین شاکر خود تو تنہائی اور کرب کا شکار ہیں، لیکن ان کی عظمت یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کے لیے صرف خیر خواہی کا اظہار کرتی ہیں۔ رقیب کے لیے ان کا یہ رویہ ایک عورت کے وسیع ظرف اور محبت کی گہرائی کی عکاسی کرتا ہے:

تیرا پہلو تیرے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ ہجراں کی

پروین شاکر کی یہ منفرد سوچ انہیں اردو شاعری کی روایت میں ایک جداگانہ مقام عطا کرتی ہے۔ ان کے کلام میں محبت کا یہ پہلو ان کی شاعری کو نہایت دلکش اور اثر انگیز بناتا ہے۔

Note: The password is hidden within this article. Read the entire article thoroughly, find the password, and enter it in the password field.

Book Cover

Parveen Shakir Ki Shayri Ki Khasosiyat

Rating: ★★★★☆
  • Author: ravinotes.com

  • File Size: 1.52 MB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment